Sunday, 28 August 2016

salam

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے اجازت ملنے سے پہلے پردہ اٹھا کر کسی کے گھر میں نظر ڈالی گویا کہ اس نے گھر کی چھپی ہوئی چیز دیکھ لی اور اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھا۔ پھر اگر اندر جھانکتے وقت سامنے کوئی اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر کچھ نہ کہتا (یعنی بدلہ نہ دلاتا) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے دروازے کے سامنے گزرا جس پر پردہ نہیں تھا اور وہ بند بھی نہیں تھا پھر اس کی گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں بلکہ گھر والوں کی غلطی ہے۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ کَشَفَ سِتْرًا فَأَدْخَلَ بَصَرَهُ فِي الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ فَرَأَی عَوْرَةَ أَهْلِهِ فَقَدْ أَتَی حَدًّا لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ لَوْ أَنَّهُ حِينَ أَدْخَلَ بَصَرَهُ اسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ فَفَقَأَ عَيْنَيْهِ مَا عَيَّرْتُ عَلَيْهِ وَإِنْ مَرَّ الرَّجُلُ عَلَی بَابٍ لَا سِتْرَ لَهُ غَيْرِ مُغْلَقٍ فَنَظَرَ فَلَا خَطِيئَةَ عَلَيْهِ إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَی أَهْلِ الْبَيْتِ

Friday, 26 August 2016

شہادت کے تصور میں تبدیلی

شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تها - اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال هوتا تها - جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے ، اس کے لیے معروف لغوی لفظ #قتل استعمال هوتا تها - جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : یعنی اور جو لوگ اللہ کہ راه قتل کیے جائیں ان کو #مرده مت کہو - اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا -
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے - لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر هو گا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوه احد پیش آیا -
اس #جنگ میں صحابہ سے ستر آدمی مارے گئے - صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساته آیا ہے : یعنی حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحاب رسول میں سے ستر آدمی قتل هوئے -( صحیح البخاری ، 4078)
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ #اسلام میں مستند زمانہ سمجها جاتا ہے - اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تها - بعد کے زمانے میں دهیرے دهیرے ایسا هوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی ، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بهی تبدیلی آئی - یہاں تک کہ دهیرے دهیرے یہ حال هوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف هو گیا - اس کے بجائے ، #شہادت اور #شہید کا لفظ جانی قربانی کے معنی میں استعمال هونے لگا -
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام هو گیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا - مثلا حسن البنا شہید ، سید قطب شہید ، سید احمد شہید ، شاه اسماعیل شہید ، وغیره - اصحابہ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساته جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا - مثلا عمر بن الخطاب شہید ، عثمان بن عفان شہید ، علی ابن ابی طالب شہید ، سعد بن معاذ شہید ، وغیره - صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساته لکها اور بولا گیا ، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساته - جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج هوا - چنانچہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچهہ روایات کے اوپر یہ باب قائم کیا ہے : باب لا یقول فلاں شهید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ بات ساده بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے - وه یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساته پکارا جائے : یعنی ان کو ان کی آبائی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیاده منصفانہ بات ہے (33:5) - نام کے ساته شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا ، اشخاص کے بارے میں غیر واقع ذہن بنانے والا عمل ہے - یہ طریقہ اسلام آداب کے مطابق نہیں -
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجوده زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا - موجوده زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج هوا ، اس کا اصل سبب یہی ہے - جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک هوتے ہیں ، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے - اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ وه لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فورا جنت میں داخل هو گئے -
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات کے دور میں رائج هوا - اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا - اس کے بعد اس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا هو گیا - یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری هوا - اس کے بعد بتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کرلی -
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں ، وه شہید هوں گے ، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل هو جائیں گے - یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تها ، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں - دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباه کن صورت وه ہے جو موجوده زمانے میں خودکش بمباری کی صورت میں ظاہر هوئی - اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچهہ علماء کی طرف سے غلط طور پر اس کو استشہاد (طلب شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا -
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں - لیکن شہادت کا اصل کام ، #دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں ، نہ مسلم علماء کے اندر ، نہ مسلم عوام کے اندر - شہادت کے اس خود ساختہ تصور کے تحت وه جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں ، وه ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکهتے ہیں - اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں -
الرسالہ ، جون ، 2015
فریضہ شہادت

مشابہت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس نے ہمارے علاوہ کسی اور کی #مشابہتاختیار کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ #یہود و #نصاری کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ 
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَی
جامع #ترمذی ۔ جلد دوم ۔ #حدیث 606

Tuesday, 23 August 2016

Ibn Hajar reported: Ash-Shafi’ee, may Allah have mercy on him, said, “Innovations are of two kinds: praiseworthy and blameworthy. Whatever agrees with the Sunnah is praiseworthy and whatever differs from it is blameworthy.”
In another narration, Ash-Shafi’ee said, “Newly invented matters are of two types. Whatever is invented that differs from the Book, the Sunnah, the reports, and the consensus, then this is called an innovation of misguidance. Whatever goodness is invented that does not differ in any way from those, then this is called an innovation that is not blameworthy.”
Source: Fath ul-Bari 6849
عن ابن حجر قَالَ الشَّافِعِيُّ الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ مَحْمُودَةٌ وَمَذْمُومَةٌ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ فَهُوَ مَحْمُودٌ وَمَا خَالَفَهَا فَهُوَ مَذْمُومٌ
عَنِ الشَّافِعِيِّ أَيْضًا قَالَ الْمُحْدَثَاتُ ضَرْبَانِ مَا أُحْدِثُ يُخَالِفُ كِتَابًا أَوْ سُنَّةً أَوْ أَثَرًا أَوْ إِجْمَاعًا فَهَذِهِ بِدْعَةُ الضَّلَالِ وَمَا أُحْدِثُ مِنَ الْخَيْرِ لَا يُخَالِفُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ مُحْدَثَةٌ غَيْرُ مَذْمُومَةٍ
6849 فتح الباري شرح صحيح البخاري كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ المحدثات
Narrated Abu Huraira (Radi-Allahu 'anhu):

Allah's Apostle (Sallallahu 'Alaihi Wa Sallam) said, "The congregational
prayer of anyone amongst you is more than twenty (five or twenty seven)
times in reward than his prayer in the market or in his house, for if he
performs ablution completely and then goes to the masjid with the sole
intention of performing the prayer, and nothing urges him to proceed to the
masjid except the prayer, then, on every step which he takes towards the
masjid, he will be raised one degree or one of his sins will be forgiven.
The angels will keep on asking Allah's forgiveness and blessings for
everyone of you so long as he keeps sitting at his praying place. The
angels will say, 'O Allah, bless him! O Allah, be merciful to him!' as long
as he does not do Hadath or a thing which gives trouble to the other." The
Prophet (Sallallahu 'Alaihi Wa Sallam) further said, "One is regarded in
prayer so long as one is waiting for the prayer."

Bukhari Vol. 3 : No. 330

Monday, 22 August 2016

Sunan al-Tirmidhī 3358

Abu Huraira reported: The Messenger of Allah, peace and blessings be upon him, said, “Verily, the first thing a servant will be asked about on the Day of Resurrection will be his blessings. It will be said to him: Did We not give you health in your body and cool water to drink?
Source: Sunan al-Tirmidhī 3358
Grade: Sahih (authentic) according to Al-Albani
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنْ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنْ الْمَاءِ الْبَارِدِ
3358 سنن الترمذي كتاب تفسير القرآن باب ومن سورة ألهاكم التكاثر
3358 المحدث الألباني خلاصة حكم المحدث صحيح في صحيح الترمذي

Thursday, 18 August 2016

Bukhari Vol. 3 : No. 576

Narrated Hudhaifa (Radi-Allahu 'anhu):

I heard the Prophet (Sallallahu 'Alaihi Wa Sallam) saying, "Once a man died
and was asked, 'What did you use to say (or do) (in your life time)?' He
replied, 'I was a business-man and used to give time to the rich to repay
his debt and (used to) deduct part of the debt of the poor.' So he was
forgiven (his sins.)" Abu Masud said, "I heard the same (Hadith) from the
Prophet."

Bukhari Vol. 3 : No. 576

Wikipedia

Search results