شہادت کے تصور میں تبدیلی
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تها - اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال هوتا تها - جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے ، اس کے لیے معروف لغوی لفظ #قتل استعمال هوتا تها - جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : یعنی اور جو لوگ اللہ کہ راه قتل کیے جائیں ان کو #مرده مت کہو - اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا -
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے - لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر هو گا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوه احد پیش آیا -
اس #جنگ میں صحابہ سے ستر آدمی مارے گئے - صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساته آیا ہے : یعنی حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحاب رسول میں سے ستر آدمی قتل هوئے -( صحیح البخاری ، 4078)
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ #اسلام میں مستند زمانہ سمجها جاتا ہے - اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تها - بعد کے زمانے میں دهیرے دهیرے ایسا هوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی ، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بهی تبدیلی آئی - یہاں تک کہ دهیرے دهیرے یہ حال هوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف هو گیا - اس کے بجائے ، #شہادت اور #شہید کا لفظ جانی قربانی کے معنی میں استعمال هونے لگا -
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام هو گیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا - مثلا حسن البنا شہید ، سید قطب شہید ، سید احمد شہید ، شاه اسماعیل شہید ، وغیره - اصحابہ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساته جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا - مثلا عمر بن الخطاب شہید ، عثمان بن عفان شہید ، علی ابن ابی طالب شہید ، سعد بن معاذ شہید ، وغیره - صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساته لکها اور بولا گیا ، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساته - جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج هوا - چنانچہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچهہ روایات کے اوپر یہ باب قائم کیا ہے : باب لا یقول فلاں شهید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ بات ساده بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے - وه یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساته پکارا جائے : یعنی ان کو ان کی آبائی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیاده منصفانہ بات ہے (33:5) - نام کے ساته شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا ، اشخاص کے بارے میں غیر واقع ذہن بنانے والا عمل ہے - یہ طریقہ اسلام آداب کے مطابق نہیں -
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجوده زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا - موجوده زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج هوا ، اس کا اصل سبب یہی ہے - جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک هوتے ہیں ، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے - اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ وه لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فورا جنت میں داخل هو گئے -
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات کے دور میں رائج هوا - اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا - اس کے بعد اس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا هو گیا - یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری هوا - اس کے بعد بتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کرلی -
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں ، وه شہید هوں گے ، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل هو جائیں گے - یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تها ، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں - دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباه کن صورت وه ہے جو موجوده زمانے میں خودکش بمباری کی صورت میں ظاہر هوئی - اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچهہ علماء کی طرف سے غلط طور پر اس کو استشہاد (طلب شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا -
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں - لیکن شہادت کا اصل کام ، #دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں ، نہ مسلم علماء کے اندر ، نہ مسلم عوام کے اندر - شہادت کے اس خود ساختہ تصور کے تحت وه جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں ، وه ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکهتے ہیں - اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں -
الرسالہ ، جون ، 2015
اسلام کے ابتدائی دور میں شہادت کا یہی تصور تها - اس زمانے میں شہادت کا لفظ گواہی کے لیے استعمال هوتا تها - جہاں تک اللہ کے راستے میں جان دینے کا معاملہ ہے ، اس کے لیے معروف لغوی لفظ #قتل استعمال هوتا تها - جیسا کہ قرآن میں آیا ہے : یعنی اور جو لوگ اللہ کہ راه قتل کیے جائیں ان کو #مرده مت کہو - اس آیت کے مطابق ، اللہ کے راستے جان دینے والے کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا -
ایسے شخص کا اجر اللہ کے یہاں بلاشبہ بہت بڑا ہے - لیکن انسانی زبان میں اس کا ذکر هو گا تو اس کو مقتول فی سبیل اللہ کہا جائے گا - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہجرت کے تیسرے سال غزوه احد پیش آیا -
اس #جنگ میں صحابہ سے ستر آدمی مارے گئے - صحیح البخاری میں اس کا ذکر ان الفاظ کے ساته آیا ہے : یعنی حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ احد کے دن اصحاب رسول میں سے ستر آدمی قتل هوئے -( صحیح البخاری ، 4078)
رسول اللہ کے بعد صحابہ اور تابعین کا زمانہ #اسلام میں مستند زمانہ سمجها جاتا ہے - اس زمانے میں یہی طریقہ رائج تها - بعد کے زمانے میں دهیرے دهیرے ایسا هوا کہ جس طرح دوسری تعلیمات میں تبدیلی آئی ، اسی طرح شہادت کی اصطلاح میں بهی تبدیلی آئی - یہاں تک کہ دهیرے دهیرے یہ حال هوا کہ شہادت بمعنی دعوت کا تصور امت کے ذہن سے حذف هو گیا - اس کے بجائے ، #شہادت اور #شہید کا لفظ جانی قربانی کے معنی میں استعمال هونے لگا -
بعد کے زمانے میں یہ رواج عام هو گیا کہ اس قسم کے افراد کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل کیا جانے لگا - مثلا حسن البنا شہید ، سید قطب شہید ، سید احمد شہید ، شاه اسماعیل شہید ، وغیره - اصحابہ رسول میں بہت سے لوگوں کے ساته جانی قربانی کا یہ واقعہ پیش آیا لیکن کسی کے نام کے ساته شہید کا لفظ شامل نہیں کیا گیا - مثلا عمر بن الخطاب شہید ، عثمان بن عفان شہید ، علی ابن ابی طالب شہید ، سعد بن معاذ شہید ، وغیره - صحابہ کا نام ہمیشہ ان کے آبائی نام کے ساته لکها اور بولا گیا ، نہ کہ شہید کے اضافے کے ساته - جیسا کہ بعد کے زمانے میں رائج هوا - چنانچہ محدث البخاری نے اپنی کتاب میں اس نوعیت کی کچهہ روایات کے اوپر یہ باب قائم کیا ہے : باب لا یقول فلاں شهید (کتاب الجہاد والسیر)
یہ بات ساده بات نہیں ہے بلکہ اسلام کے ایک اہم اصول پر مبنی ہے - وه یہ کہ لوگوں کو ان کے آبائی نام کے ساته پکارا جائے : یعنی ان کو ان کی آبائی نسبت سے پکارو ، یہ اللہ کے نزدیک زیاده منصفانہ بات ہے (33:5) - نام کے ساته شہید یا اس طریقے کے دوسرے الفاظ کا اضافہ کرنا ، اشخاص کے بارے میں غیر واقع ذہن بنانے والا عمل ہے - یہ طریقہ اسلام آداب کے مطابق نہیں -
شہادت اور شہید کے معاملے میں یہ غیر اسلامی طریقہ موجوده زمانے میں اپنی آخری حد پر پہنچ گیا - موجوده زمانے میں مسلمانوں کے درمیان تشدد کا جو طریقہ رائج هوا ، اس کا اصل سبب یہی ہے - جو لوگ اس متشددانہ عمل میں ہلاک هوتے ہیں ، ان کو بطور خود شہید اور شہداء کا ٹائٹل دیا جاتا ہے - اور یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ وه لوگ ہیں جو مرنے کے بعد فورا جنت میں داخل هو گئے -
یہ معاملہ اپنی عمومی صورت میں نوآبادیات کے دور میں رائج هوا - اس دور میں مغربی قوموں نے مسلم علاقوں پر غلبہ حاصل کر لیا - اس کے بعد اس دور کے مسلم مقررین اور محررین کی غلط رہنمائی کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر عام طور پر ان کے خلاف شدید ردعمل پیدا هو گیا - یہ ردعمل پہلے نفرت کی شکل میں جاری هوا - اس کے بعد بتدریج اس نے تشدد کی صورت اختیار کرلی -
اس متشددانہ عمل کو مقدس بنانے کے لیے کہا گیا کہ جو لوگ اس مقابلے میں مارے جائیں ، وه شہید هوں گے ، اور بلا حساب کتاب فورا جنت میں داخل هو جائیں گے - یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ مسئلہ تها ، جس کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہیں - دوسری قوموں کے خلاف اس منفی ردعمل کی آخری تباه کن صورت وه ہے جو موجوده زمانے میں خودکش بمباری کی صورت میں ظاہر هوئی - اس خودکش بمباری کو مقدس بنانے کے لیے کچهہ علماء کی طرف سے غلط طور پر اس کو استشہاد (طلب شہادت) کا ٹائٹل دے دیا گیا -
اب حال یہ ہے کہ لوگ بڑی تعداد میں شہادت کے نام پر اپنی جانیں دے رہے ہیں - لیکن شہادت کا اصل کام ، #دعوت الی اللہ کو انجام دینے کی تڑپ کسی کے اندر نہیں ، نہ مسلم علماء کے اندر ، نہ مسلم عوام کے اندر - شہادت کے اس خود ساختہ تصور کے تحت وه جن لوگوں پر حملے کرتے ہیں ، وه ان کے لیے مدعو کی حیثیت رکهتے ہیں - اور مدعو کو ہلاک کرنا اسلام میں سرے سے جائز ہی نہیں -
الرسالہ ، جون ، 2015
فریضہ شہادت
No comments:
Post a Comment